16-Dec-2021 حضرت سلیمان علیہ السلام
حضرت سلیمان علیہ السلام
قسط نمبر 3
تیسرا_حصہ
یہ معجزہ تو ایک نبی کی شان ہے کہ اسے عام بندوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہاں حیران کن امر یہ ہے کہ حشرات الارض میں سب سے عاجز، بے بس و لاچار مخلوق کو یہ کیسے علم ہوا کہ ایک بہت بڑا لشکر آ رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے لشکر کی آمد کا علم تھا بلکہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ عظیم الشان لشکر حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہے جس سے بچنے کے لیے اس نے اپنی قوم کو خبردار کیا۔ آزمائش اور مصیبت کے وقت چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی اپنے سے لاکھوں گنا بڑی مخلوق کے مقابلے پر آ جاتی ہے۔ ممولے کو شہباز سے لڑا دیتی ہے۔ حقیر چیونٹیاں متحد ہو کر خطرناک اژدہے کو تڑپا تڑپا کر مار دیتی ہیں اور اگر کسی وقت اشرف المخلوقات بھی اسے تنگ کرے تو وہ اسے ایسے زور سے کاٹتی ہیں کہ وہ بلبلا اٹھتا ہے تو اس ننھی منی مخلوق چیونٹی کو بھی اللہ نے کیسی حکمت و دانائی بخشی۔ رہا یہ سوال کہ کیا جانوروں پرندوں کی بھی زبانیں یا بولیاں ہوا کرتی ہیں کہ جو انھیں آپس میں معاملات کے طے کرنے میں مدد دیتی ہیں تو اس کا واضح جواب ارشاد باری تعالیٰ میں موجود ہے کہ زمین کا ہر جانور اور فضا کا ہر پرندہ تمہاری مانند اقوام ہیں۔
یہ بات عیاں ہے کہ کسی بھی قوم میں ربط و ضبط اور میل جول میں زبان ایک اہم کردار ادا کرتی ہے کہ اس کے بغیر کوئی مخلوق دوسرے کی بات ہی نہیں سمجھ سکتی۔ جانوروں، حشرات اور پرندوں کی سیکڑوں اقسام ہیں، جو اپنا مدعا اپنی بولی میں بیان کر دیتے ہیں۔ یہ علم حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور نبی پاکﷺ کو عطا کیا گیا تھا کہ وہ ان کی آپس کی گفتگو سمجھ لیا کرتے تھے۔ اعتراض کرنے والوں نے تو یہاں تک کہا کہ اس زمانے میں پرندے، جانور، حشرات اور انسان ایک زبان بولتے تھے۔ ان کے اس بے معنی اعتراض کا کیا جواب دیا جائے کہ اگر ایسا تھا تو حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت داؤد علیہ السلام کا اس میں کیا کمال ہوا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ خصوصیت تھی کہ ان کے لیے یہ آوازیں ایک ناطق انسان کی باتوں کی طرح تھیں۔ اب یہ خیال کرنا کہ وہ اپنے اندازے اور قیاس کے مطابق پرندوں کے منہ سے نکلی ہوئی آواز سے مطلب اخذ کر لیا کرتے تھے، درست نہ ہو گا کیونکہ یہ بات تو سبھی جانوروں، پرندوں سے پیار کرنے والے، ان کے قریب رہنے والے، جان ہی لیتے ہیں کہ اس وقت اس کی آواز کا مفہوم کیا ہے۔ جانور، پرندہ اس وقت بھوکا ہے، پیاسا ہے، یا خوشی و مسرت کا اظہار کر رہا ہے یا اپنے مالک کو دیکھ کر وفاداری کا یقین دلا رہا ہے۔ دشمن کو دیکھ کر خوفزدہ ہے یا اس سے بچاؤ کی تدبیر کر رہا ہے۔ یوں جانوروں کی بولیاں مختلف کیفیات کی صورت میں اندازے سے سمجھ لی جاتی ہیں، اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا تو پھر قرآن پاک میں اس کی اتنی فضیلت کیوں بیان کی جاتی۔ اس لیے یہ خیال درست نہیں کہ وہ پرندوں کی حرکات و سکنات یا آواز کے زیر و بم سے ان کے مقصد کے متعلق قیاس کر لیا کرتے تھے۔ نطق کے لیے آواز کا ہونا ضروری ہے جو چرندوں پرندوں کے پاس ہے۔ صوت اور صوت کا زیرو بم، نشیب و فراز بھی ان کے ہاں موجود ہے۔ فرق آواز اور قوت گویائی کا ہے۔ عام انسان کے لیے پرندوں کی آواز صرف صوت ہے اور اُسے وہ قوت گویائی سے محروم معلوم ہوتے ہیں۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ قوتِ گویائی صرف انسان کو دی گئی ہے۔
اس واقعے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے شاہ مور؍ ملکہ مور سے گفت و شنید کی اسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنی رعایا پر کیا اسی طرح مہربانی کرتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ ان کی خوشی میری خوشی ہے۔ ان کا غم میرا غم ہے۔ کہیں بھی کوئی چیونٹی مر جائے تو میں اسے اٹھا کر لاتا ہوں۔ شاہِ مور نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی عقل و فہم دی ہے۔ بے شک اشرف المخلوقات سے کم پھر بھی میری بادشاہی تمہاری بادشاہی سے بہتر ہے۔ تم نے کہا تھا کہ اے اللہ مجھ کو ایسی حکومت عطا کر جو میرے سوا کسی اور کو میسر نہ ہو۔ اس سوال سے منفرد ہونے کی خواہش ظاہر ہوتی ہے
شاہ مور نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے پوچھا ’’ آپ کی انگوٹھی میں جو نگینہ لگا ہے اس میں کیا راز ہے۔ ‘‘
آپؐ نے فرمایا۔ ’’ میں نہیں جانتا‘‘
تو اس نے کہا ’’ خدا نے آپ کو جووسیع و عریض سلطنت و بادشاہت عطا کی ہے۔ وہ ایک نگینے کے برابر اہمیت رکھتی ہے تاکہ آپ اس بات سے آگاہ ہو جائیں کہ دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ ‘‘
پھر پوچھا’’ آپ کے لیے ہوا کو مسخر کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’ مجھے علم نہیں۔ ‘‘ تو اس نے کہا۔ ’’ اس لیے کہ مرنے کے بعد آپ کو دنیا ہوا جیسی ہلکی معلوم ہو گی۔ ‘‘ پھر اس نے پوچھا کہ تم سلیمان کے معنی جانتے ہو۔ آپ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو جواب دیا۔ ’’ سلیمان کے معنی ہیں کہ دنیا کی زندگی پربھروسا مت کر، موت قریب ہے اس کی طرف توجہ کر۔ ‘‘ آپ شاہِ مور کی دانائی کے معترف ہوئے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام جب رخصت ہونے لگے تو اس نے کہا کہ میں ایسے جانے نہ دوں گا۔ آپ اور آپ کا لشکر میرا مہمان ہے۔ آج یہیں کھانا تناول فرمائیے۔ اس کے اصرار پر آپ علیہ السلام مان گئے۔ ذرا ہی دیر میں دعوت کا انتظام ہو گیا۔ شاہ مور نے ٹڈی کی ایک ران آپ کے سامنے رکھ دی۔ آپ ہنس پڑے۔ ’’میں اور میرا لشکر اور یہ ران‘‘۔ شاہ مور نے کہا بسم اللہ کیجیے۔ آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے لشکر نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا اور خدا کی قدرت سے ران پھر بھی بچ گئی
نطق الطیر کا یہ علم حضور اکرمﷺ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو ودیعت کیا گیا تھا:
ترجمہ: ’’اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔ اور اس نے کہا۔ اے لوگو! ہم کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے دیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ بہت ہی واضح فضل ہے۔ ‘‘ ۳۳؎
حضرت سلیمان پرندوں کی آواز سن کر اپنے ہمراہیوں کو بتا دیا کرتے تھے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، ایک دفعہ مور کی پیہو پیہو کی پکار کا مطلب انھوں نے یہ بتایا کہ یہ کہہ رہا ہے ’’ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ‘‘ ہد ہد کہہ رہا ہے ’’ اے گنہگارو اللہ سے مغفرت طلب کرو‘‘ سیاہ رنگ کے لمبے بازوؤں والے پرندے خطاف کی آواز سن کر کہا کہ یہ کہہ رہا ہے ’’ نیکی کرو تاکہ آگے جا کر ان کی جزا ملے۔ ‘‘ قمری یہ تسبیح پڑھ رہی ہے ’’ سبحان ربی ا لاعلیٰ‘‘ چیل خبر دار کر رہی ہے’’ رب کے سوا ہر چیز فانی ہے۔ ‘‘ تیتر کہہ رہا ہے ’’ جو خاموش رہا وہ فائدے میں رہا ‘‘ مرغ کہہ رہا ہے ’’ اے غافلو خدا کو یاد کرو‘‘ گدھ انسان کو متنبہ کر رہا ہے’’ اے انسان تو کتنا زندہ رہ لے گا تیرا انجام موت ہی ہے ‘‘ مینڈک کہہ رہا ہے ’’ سبحان ربی القدوس۔ ‘‘
غرض حضرت سلیمان دورانِ سفر اکثر اپنے ساتھیوں کو بتاتے رہتے کہ کون سا پرندہ یا جانور کیا کہہ رہا ہے۔ ۳۴؎
ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں کچھ عرصہ تک بارش نہ ہوئی۔ کھیتیاں جلنے لگیں۔ نہریں خشک ہو گئیں حضرت سلیمان علیہ السلام نمازِ استسقاء کے لیے اپنی امت کے ہمراہ باہر میدان کی طرف نکلے۔ اتنے میں ایک چیونٹی نظر آئی جو الٹی لیٹی ہوئی تھی۔ آسمان کی طرف پاؤں اٹھائے اللہ سے التجا کر رہی تھی کہ ہم تیری ادنیٰ مخلوق ہیں اور تیری نظر کرم کے سوالی ہیں۔ اگر بارش نہ ہوئی تو ہم سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اس بے چارگی کی ہلاکت سے بچا لے۔ یہ نحیف و نزار بے چارگی و بے بسی میں ڈوبی آواز حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچی تو آپ علیہ السلام نے اپنی امت سے فرمایا کہ واپس چلو۔ ہمارے اس مسئلے کو اس کمزور ترین مخلوق نے حل کر دیا ہے۔
خدا کی حقیر ترین مخلوق کی مثال دینا ہو تو چیونٹی کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ مخلوق اپنی فہم و ذکاوت، وقت کی اہمیت سے آگاہی اور کاموں کی تقسیم کی بنا پر بعض اوقات اشرف المخلوقات سے بھی بڑھ کر دکھائی دیتی ہے۔
حضرت ابنِ عطیہ رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چیونٹی ذہین و عقلمند جانور ہے۔ اس کے سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے زمین کے اندر اور اوپر ہر شے کا اندازہ کر لیتی ہے۔ دانے جمع کرنے میں بے حد محنت و مشقت سے کام لیتی ہے اور جو دانہ اٹھا لاتی ہے اسے فوراً دو ٹکڑے کر دیتی ہے کہ وہ اگ نہ سکے۔ دھنیا اور مسور کے چار ٹکڑے کر دیتی ہے کہ اسے علم ہے دو ٹکڑے کرنے پر وہ اگ سکتا ہے۔ سردی کے زمانے کے لیے اپنی خوراک کا ذخیرہ کر لیتی ہے۔ علمِ حیوانات کے ماہر بھی اس کی فہم و فراست کے قائل ہیں، انسانوں کی طرح اس کی قوم میں خادم بھی شامل ہیں اور سپاہی بھی۔ کھیتی باڑی بھی جانتی ہے، غلے کو احتیاط سے تہ خانوں میں محفوظ رکھتی ہے۔ اس کی قوم میں جاگیر دار بھی ہوتے ہیں اور کارکن بھی۔ تہ خانے میں محفوظ غلہ اگر نمی یا رطوبت کی وجہ سے خراب ہونے لگے تو تمام چیونٹیاں ا سے تہ خانے سے باہر نکال کر دھوپ لگواتی اور پھر سے محفوظ کر لیتی ہیں۔ ۳۵
جاری ہے
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com